Sunday, May 27, 2007

نئی نسل


جوان نسل کے علم کو دبانے والو
اس ملک کے مستقبل کا تو خيال کرو
تعمير کی راہ ميں کيوں کھڑے ہو تم
اس ان چھوئی منزل مقصود کا خيال کرو

اپنے دن کو پر زور جيا ہے تم نے
اس شب کے چاند کو بھی تم ہی سنواروگے
کل کا سورج مگر ان ديوانوں کا ہے
اس صبح کے اجالے کا تو خيال کرو

تمہاری شمعاوں کی لو جو بجھتی جاتی ہے
نئے ديوں کو اسی سے جلانا ہے تمہيں
يے ديے جو کل کی مشعليں بنيں گے
انہی سے اپنی نسل کو بڑھانا ہے تمہيں
اس سے پہلے کۂ يے شمعيں بجھ جايں
ان ديوں کا تم خشی سے استقبال کرو
تعمير کی راہ ميں کيوں کھڑے ہو تم
اس ان چھويی منزل مقصود کا خيال کرو

حرميّت

Friday, May 25, 2007

دو گز زمين



دو گز زمين کی دوڑ يے ساری ہے
تيرا پل ميرے لمہے پے بھاری ہے

اوروں کی کبروں پر رکھی ہے بنياد ميں نے
ميری بنياد پر تو نے عمارت اساری ہے

نا محبّت، نا دوستی، نا خلوص اس جہاں ميں
اس بازار ميں ہر کوی تنگدلی کا بيوپاری ہے

بھگوان کے گھر بھی جلاتا ہے ديا، اگرچۂ
ہر اک ديندار مگر دولت کا پوجاری ہے

نا پتا ہی ہے مالوم، نا کوی رہبر ہےپھر بھی
اک انجان سی منزل کی تالاش يوں جاری ہے

دو گز زمين کی دوڑ يے ساری ہے
تيرا پل ميرے لمہے پے بھاری ہے

حرميّت

بے وفا


دوستوں کی ہميں کبھی کمی نا تھی
اک دشمن کی چاہ ہميشا رہی
تو بے شق بے وفا ہی نکلی
مگر تيری وفا کی چاہ ہميشا رہی

زندگی کا سب سے حسين تحفۂ
تيری جفاوں سے ملا ہے مجھے
نا کاميابی کا يے بد نما داغ
زمانے کی ہواوں سے ملا ہے مجھے
يوں تو گلشن ميں بہت سے صبايں تھی
مگر اس ہوا کی چاہ ہميشا رہی
تو بے شق بے وفا ہی نکلی
تيری وفا کی چاہ ہميشا رہی

تيری ياد ميں اپنی روح کو جلانا
ميری غيرت کو گنوارا نہيں
تيرے افسوس ميں گھٹ گھٹ کے مر جانا
ميری موت کو بھی گنوارا نہيں
يوں تو جينے کی کوی خواہش باقی نا تھی
مگر اک تمّنا کی چاہ ہميشا رہی
تو بے شق بے وفا ہی نکلی
تيری وفا کی چاہ ہميشا رہی

تيری وفاوں کے جنازے کو
ان کندھوں پے لے جاونگا ميں
تيری الفت کی يادوں کو
انہی ہاتھوں سے دفناونگا ميں
يوں تو ان حصّوں کو بہت استماا کيا
مگر اس ادا کی چاہ ہميشا رہی
تو بے شق بے وفا ہی نکلی
تيری وفا کی چاہ ہميشا رہی

حرميّت

Tuesday, May 22, 2007

اکيلا انسان


دنيا کے شور و غل ميں اک اکيلا کھڑا ہوں ميں
کوی کيا سمجھيگا مجھے، ميں خد سے بھی انجان سا ہوں


يے محفليں يے رنگ و رونق، کبھی نا راس آيے مجھے

بھٹکتا ہوں چپ چاپ، ميں خد سے بھی بے زباں سا ہوں


زندگی کے اس تنہا سفر ميں گام گام پے کھايے ہيں دھوکے

کوی کيا تھاميگا يے ہاتھ، ميں خد سے بھی بے امان سا ہوں


شب و روز بنتا ہوں خواب خواہيشات کی حقيقت کے

کوی تمّنا کيا پوری ہوگی، ميں خد ادھورا ارمان سا ہوں


خد سے نا ہے کوی اميّد ان کھوکھلی رسموں کو بدلنے کی

کوی خدا بھی کيا کر سکيگا يے اور ميں تو فقط انسان سا ہوں

کوی خدا بھی کيا کر سکيگا يے اور ميں تو فقط انسان سا ہوں


حرميّت

(Farewell) فيئرويل


جا رہا ہوں دو برس اس ديار پے گزار کے
سميٹ کر سب لمہات درد فراق يار کے

اس جگۂ نے بہت مجھے طاليم و الم کا نور ديا
يہيں سے حاصل ہوے مجھے سبق وفا و پيار کے

تا عمر بھلا نا پاوںگا ان سنگی ساتھيوں کو ميں
کہ چند دنوں ميں ہو جايںگے ساٹھ حّصے اس پريوار کے

بہت سی خطايں ہوی ہيں اس سفر ميں، مگر پھر بھی
رکھتا ہوں اميّد مؤافی کی ہم راہ و ہم کار سے

تم سے بھی اے ازيز دوستو، يہی اک درخواست ہے ميری
دلوں ميں بير رکھنے کے بجاۓ، جاو یہيں پے دل ہار کے

جی تو نہيں چاہتا پھر بھی الويدا کہتا ہوں ميں
جانے کب مليںگےپھر، جو بچھڑے اس در و ديوار سے
جانے کب مليںگےپھر، جو بچھڑے اس در و ديوار سے

حرميّت

Friday, May 18, 2007

دھڑکن کی آواز


ميری دھڑکن ميں اک آواز سنايی ديتی ہے
رھ رھ کر ‌‌يۓ مجھے دوہايی ديتیی ہے
کہ وھ دل ہی کيا جس ميں کسي کا پيار نا ہو
وھ لہو ہی کيا جس ميں کويی رفتار نا ہو
وھ دامن ہی کيا جس پے کوی بھی داغ نا ہو
ارے وھ سينا ہی کيا جس ميں کسی کی آگ نا ہو

مگر ميرے دماغ کی نسيں مجھے بچاتی ہيں
بھٹکتے ہوے کو صہی راھ دکھلاتی ہيں
کہ اس نادانی ميں نا کبھی تيرا بھلا ہوگا
درد و غم کے سوا نا کويی اس کا سلا ہوگا

دل و دماغ ميں اک کشمکش سی جاری ہے
اور اس لڑايی ميں ميری سوچ کا پلڑا بھاری ہے
يوں تو ميں بھی اپنی سوچ کی طرفداری کرتا ہوں
مگر پھر بھی ميری دھڑکن ميں اک آواز سنايی ديتی ہے
جو رھ رھ کر مجھے دوہايی ديتی ہے

حرميّت